ناجائز

ناجائز …


(اس افسانچے کو لکھنے کا مقصد کسی کے جذبات کو ٹھیس (پہنچانے کا بالکل بھی نہیں)
کوہ ہمالیہ کے دامن میں کئی پہاڑیوں
کے بیچ لہلہاتے سبزہ زاروں ، صاف وشفاف بہتے پانی کے نالوں اور آسمان چھوتے مختلف قسم کے درختوں سے سرشار یہ آبادی اپنے اندر دلکش مناظر، اور رعنائیاں سمیٹے ہوئے قدرت کے اعلیٰ نمونوں کی عکاس اور غماز ہے ۔ ساتھ ہی انسانوں کی اچھی اور بری حرکتوں سے چھاپ ہوتے نقوش بھی اپنے اندر ایک خاص وزن رکھتے ہیں ۔ مختلف المزاج خلقت ، نیک اور بد ۔۔۔۔ مظلوم اور ظالم ۔۔۔ غریب و امیر ۔۔۔ غرض ہر بستی کی طرح یہ دور دراز چھوٹی سی بستی بھی اپنے اندر سب کچھ سمیٹے تھی۔
ضامن اور قاسم دو دوست چند دن پہلے ہی شہر سے تعلیم مکمل کر کے اپنی اس بستی میں وارد ہوئے تھے۔ قاسم اپنے ماں باپ کے ساتھ کافی خوش رہتا جبکہ ضامن اپنے ماما مامی کے گھر بہت ہی اُداس اور اکثر کھویا کھویا سا رہتا۔۔۔۔۔
بچپن سے ہی طعنے سنتا چلا آیا ضامن اپنے اندر اُداسیاں اور گُھٹن سمیٹے ہی بڑا ہوا تھا۔۔۔بچپن سے ہی اسکے نصیب میں بہت گہرے گھاؤ لکھے تھے اور ایک پل کے لئے بھی ان طعنوں اور گھاؤں کو بھولا نہیں تھا۔۔۔۔ ایک اکیلا ہمدرد اور دوست قاسم ہی تھا جسکے ساتھ کچھ روابط رکھے تھے ورنہ اپنی ہی شرم کا مارا کسی کی طرف دیکھنا بھی اِسے اذیت پہونچانے کا باعث ہوتا۔۔۔۔ اپنی طرف اٹھتی ہر نظر اِسے جگر کو کانٹے کی طرح چبھتی محسوس ہوتی اسلئے کسی سے نظر ملانے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔۔۔۔ اسی حالت میں دن کٹتے گیے۔۔۔ایک دن بستی کے ایک آسودہ گھرانے کی طرف سے ضامن کے لیئے رشتہ دینے کی بات چھڑی۔۔۔۔ قاسم کے ذریعے ہی اسے یہ پیغام ملا تھا۔۔۔ بظاہر ضامن کے لئے یہ پیغام بہت ہی خوش نما تھا لیکن اس پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوئی۔۔۔ اسکے چہرے کی رنگت ہی اڑ گئی، پریشان حالی کے عالم میں اسنے قاسم سے اس بات کو ٹالتے ہوئے کوئی اور بات کرنے کو کہا۔ قاسم جو کہ ضامن کے لئے شادی کی اس تجویز کو لیکر کافی خوش تھا، ضامن کے اس رویے سے حیران ہوا۔ قاسم نے سوچا تھا کہ غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والا ضامن اس آسودہ حال رشتے کی بات سن کر خوشی سے جھوم اٹھے گا مگر یہاں تو معاملہ کچھ اور ہی نظر آ رہا تھا۔ قاسم نے بھی ضد کی اور ضامن کو اس رشتے کے فوائد سمجھانے لگا۔ لیکن ضامن پر ان باتوں کا کچھ اور ہی اثر پڑا۔۔۔۔۔ قاسم کے بار بار اِسرار کی وجہ سے ضامن سے رہا نہیں گیا وہ ٹوٹ گیا اور چیختا چلاتا زار و قطار رونے لگا، جیسے آج زندگی کے بیتے لمحوں کی کسک یاد آکر امڑ آئ ہو۔ وہ اپنےساتھ ہوئے ایک ایک ظلم کو یاد کرتا رہا۔ اپنی ہر ہر بے چینی اور بے قراری کو اپنی نظروں کے سامنے پاتا رہا۔ ان تمام انچاہے فقروں اور اذا رساں طعنوں کو یاد کرتا گیا جن کو سننے سے اسکی لڑکپن کی کئ کئ راتیں بے خوابی میں تبدیل ہوگئیی تھیی۔ وہ لڑکپن کی راتیں کہ جس میں اسے پیار اور دُلار ملنا چاہئے تھا۔ لیکن افسوس اس بچاری ننھی سی جان کو کیسی کوفت اور کیا کیا تکالیف اور مظالم جھیلنے پڑے تھے۔۔۔۔۔ روتے بلکتے ضامن بے حال ہو گیا۔ جیسے وہ آج پہلی بار کلیجے کی جلن کو ٹھنڈک پہنچانے کی کوشش کر رہا تھا اسکا کلیجہ جیسے پھٹا جارہا تھا. اپنے آس پاس اور ارد گرد سے بالکل بے خبر چیختا رہا چلّاتا رہا۔۔۔۔۔۔ اسکی فلک شگاف آہ و زاری سن کر لگ بھگ ساری بستی کے لوگ جمع ہوگئے اور ضامن کی یہ حالت دیکھ کر انگشت بہ دنداں رہ گئے۔۔۔۔قاسم اسے دلاسا دیتا رہا لیکن ضامن کی آنکھوں سے آنسوں کا اُمڑ آیا وہ سیلاب تھمنے کا نام نہیں لے پا رہا تھا۔۔۔۔اسی حالت میں اس کا اکثر اوقات دم بخود رہ رہا منہہ اچانک سے کھل گیا اور اس نے بستی والوں کی طرف پہلی بار آنکھوں سے آنکھیں ملا کراپنے سینے میں دبائی ہوئی عمر بھر کی بھڑاس نکالنے کی ٹھان لی۔۔۔۔ اور بے ساختہ بول پڑا۔۔۔۔
” میری زندگی میں تلاطم اور ہیجان بپا کر کے رکھنے والو۔۔۔میرے بچپن کو مجھ سے چھیننے والو۔۔۔میرے لڑکپن کی میری راتوں کو بے خوابی میں بدلنے والو۔۔۔ مجھ پر طعنے اور فقرے کسنے والو۔۔۔ کیا آپ میں اتنی سی بھی غیرت اور جرأت باقی نہیں۔۔۔ اور کیا انسانیت نام کی کوئی شئے ہی موجود نہیں تم سب میں جو مجھے اس ذہنی دباؤ سے آزاد کرتے ، اِس شدّتِ سوچ اور بیقراریِ دل کا ازالہ کرتے ، اس کوفت سے بچا لیتے اور اپنے کیے گناہ کا اعتراف کر کے میرے سامنے آتے ۔ میں تمہیں بھلے ہی معاف نہ کرپاتا پر کم سے کم مجھے آگے کی زندگی کی اس بڑی الجھن سے باہر تو نکال لیتے۔۔۔
ارے گلی گلی کوچے کوچے مجھے ناجائز کہنے والو ۔۔۔ اپنے گریبان میں جھانکو مجھے اس کوفت میں مبتلا کرواکے خود کو جائز گردان رہے ہو ؟ اپنے آپ کو عزّت دار اور خاص سمجھنے والو کس بات کی عزت کس بات کی شہرت ۔۔۔ ارے بے غیرتو۔۔۔ ارے مجھے حرام زادہ اور ناجائز کہنے والو۔۔۔
میں حرامزادہ ہی سہی۔۔۔ ہاں میں ناجائز ہی سہی ۔۔۔ پر کہاں کی جائز حیثیت پائ ہے آپ سب نے ؟ ہاں آپ سب نے۔۔۔۔ میں سب کو ہی تو قصور وار مانتا ہوں۔۔۔۔ ہاں تم سب ہی اس گھناونے جرم میں شریک ہو ،اس شرمناک کام میں سب شامل ہو۔۔۔
دماغی طور معزور بن بیاہی میری ماں کے ساتھ کھلواڑ کرنے والا آپ ہی میں سے تو کوئی ہے ۔ بلکہ آپ سب ہی تو ہو اسکے گناہگار ۔۔۔۔کون ہے میرا باپ۔۔۔ کون ہے ۔۔۔۔ میں تو کہتا ہوں آپ سب ۔۔۔۔ آپ سب ہی تو ہو جنہوں نے ایک معزور اور پاگل لڑکی کے ساتھ کھلواڑ کیا۔۔۔ مجھے کن ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے پر مجبور کیے جارہے ہو۔ مجھے ناجائز ماننے والو کہاں کے جائز ٹہرے تم سب۔ ناجائز کام تو آپکا ہے۔۔۔ ہاں آپ کا ، آپ سب کا جو ایک بے سہارا پاگل معزور لڑکی کی عزت بچا نہیں سکے۔ اب سن لو سب ۔۔۔ ہاں سن لو کہ میں آپ کی بہن بیٹیوں کو اپنے لئے ناجا ئز گردانتا ہوں۔۔۔ میرے لئے تو یہ سب ناجائز ہیں ۔۔۔ کیونکہ ان سب میں سے کسی نہ کسی کا باپ ہی تو ہے میرا بھی باپ ۔ جس ناطے تو یہ میری بہنیں ہی ہیں نا۔۔۔۔
میں کیسے کسی سے شادی کر سکوں گا۔کس سے شادی کروں گا ان سب میں ہی تو میرے خون کے رشتے والی بہن بھی ہے۔ کیسے پہچانوں ، کیسے جانوں گا اسے ۔۔۔ زندگی بھر کا درد دیا ہے آپ سب نے مجھے ، روزِ محشر ایک ایک کو کٹہرے میں کھڑا کروں گا۔۔۔ کیونکہ تم سب اس گناہ کبیرہ میں برابر کے شریک اور شامل ہو ۔۔۔۔
اے میرے خدا تم گواہ رہنا ۔ اس بستی نے تمہاری ایک بے بس اور بے حس جان کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے اور بچپن سے ہی مجھے عمر بھر کا درد اور گُھٹن دے کر جھنجوڑ کے رکھ دیا ہے ۔۔۔ دیکھ اپنے بندوں کی کرتوت ۔۔۔ جن کی وجہ سے بچپن سے لےکے آج تک میں فقط طعنے سنتا آیا ہوں ۔۔۔ یہ لوگ اب بھی مجھے کرید کر چھلنی کرتے رہتے ہیں ، مجھے میرے ناکردہ گناہوں کی سزا دیتے چلے جاتے ہیں اور اب بھی میرا پیچھا نہیں چھوڑتے۔۔۔ بہت تڑپایا بے حد ترسایا ہے مجھے ۔۔۔ رب تم گواہ رہنا۔۔۔ تم گواہ رہنا۔۔۔گواہ رہنا۔
۔۔۔تڑپتا اور سسکتا ضامن ایک گہری آہ بھرتا ہوا قاسم کی آغوش میں سر رکھتا ہے۔۔۔
~ از فردوس تسلیم رحمانی ~