ہاں یہ حسرت ہے کہ شمع کو
جلتے دیکھا۔۔۔
اُس آنکھ سے اشکوں کو
ٹپکتے دیکھا۔۔۔
اس کے درد مسلسل کو
پنپتے دیکھا۔۔۔
کیا بجا بات نہ تھی؟
خاصی تھی جلن اسکی
آگ جو نار لگانے میں ماہر ٹھہری
میری حسرت ہے۔۔۔
میری حسرت ہے کہ اپنے اندھیروں میں اجالوں کی خاطر
اسکی روشن جلن کو
نہ محسوس کیا۔۔۔
محسوس کیا تو فقط روشنی کو
اُسکو اُس لٔو سے تڑپتے دیکھا۔۔۔
اس آنچ میں سلگتے دیکھا۔۔۔
کتنی امید جگائے میری اور دیکھتا ہوتا
اس آس میں کہ یہ اشرف ہے۔۔۔
بجھالے گا مجھے ، ہاں بچا لے گا۔۔۔
پر میری حسرت ہے
میری حسرت ہے کہ کتنا کٹھور
کتنا سنگدل نکلا۔۔۔
اپنی خود غرضی میں محو
اپنے ہی اجالوں میں مگن۔۔۔
اور بس ۔۔۔
میری نظروں کے سامنے اک پروانہ
اک خوبصورت سی ننھی جان
مگر مجھ سے کہیں ذہین
کہیں زیادہ دلیر۔۔۔
شاید میرے کٹھور پن کو بھانپ کر
میری سنگدلی کو جان کر
ایک بے چینی اور اضطراب میں۔۔۔
کئی بار گشت لگا کر۔۔۔
شاید میرے ضمیر کوجگانے کی بابت۔۔۔مجھکو جھنجوڑنے کی بابت۔۔۔
اک احساس دلانے کی بابت گشت کرتا رہا۔
کون کہتا ہے کہ شمع کی محبت میں
پروانہ اپنی جان نچھاور کرتا ہے
میری حسرت ہے۔۔۔
ہاں یہ حسرت ہے کہ اسے بھی
نہ سمجھ پایا میں۔۔۔۔
میری غیرت کو للکارکے۔۔۔
اِس اشرف کی خفتہ ضمیری
کو جھٹک کے۔۔۔
یہ عظیم پروانہ ۔۔۔۔
شمع کے درد کو سمجھ کر
اسکی تڑپ کو بھانپ کر۔۔۔
اپنے پنکھوں سے اس لگیآگ کو
بجھانے کی خاطر
کود پڑا اس سلگتی آگ میں
اک درد مٹانے کی خاطر ،
اک فرض نبھانے کی خاطر،
بس اک جان بچانے کی خاطر۔۔۔
میری حسرت ہے، اُف میری حسرت ہے۔۔۔۔
~ فردوس تسلؔیم رحمانی ~