درونِ شب وہ ہوئی اک نداء کہ اے نافِلٹٹول نفس ، پلٹ اندھیار سے تٗو اے غافِل ۔چشمِ روشن کا ہی حق اگر نظر میں نہ ھوشَبوں کو یوم بناکر بھی نہ کچھ لگےحاصِل۔اِس انجمن میں لگے چاؤ و بھاؤ کی خاطرنہ کر رِیا و دِکھاوے میں اپنی زندگی زائِل۔سبز وہ باغ دکھاۓ ، تو لُٹا ئے کتنے سُکونکبھی گِنا تو کرو اپنے کارہاۓ کُل باطِل ۔مصافحہ ابلیس سےاور تلاش خضرٔ کی ھےوَلے ناخداؤں کےاُس خدا نے ناؤ دی ساحِل۔یوں شانِ کبریا ساجھے وہ آ بسا ھے قریب نِہاں سے جھانک، وہاں تو بنا ھےخود فاصِل۔محاسبہ نہ ھوجب تک،سمجھ کہ ھے مُشکلصراطِ زیست تو سراپا ھےاِک امتحانِ فاضِلنہ ہو گمان کہ کیاکیا سخا ملے ہیں بِن مانگےہو کےنادم دیکھ اپنا مقدّر، بڑا ھے وہ عادِل۔تلاش صبح نئ سحر نئ ، ہٹا نقابِ پوشیدہقلب میں تڑپ بڑھا ، سلب کہیں نہ ہو حائِل۔تلخئ حق کریں تسلؔیم،صِلہ وجِلانمودھے وہ سُلجھ تو جائیےعملاً، پھرامید جگائیے کامِل۔
فردوس تسلؔیم رحمانی