افسانہ ۔۔۔۔۔۔۔شمع روشنی کی نئ کِرن۔۔
کتنا ہی حسین موسم ، کیا ہی سہانا سماں ، کتنا صاف و شفاف ماحول ، ٹھنڑی ٹھنڑی ہواؤں کی بھینی بھینی خوشبو ۔لہلہاتے سبزہ زاروں کی محضوذ کرتی مہک ۔ دیودار 🌲 اور کایرو کے اونچے اونچے درختوں 🌲 کا آسمان چھونا۔ دور دور تک پھیلے ہوۓ ہریالی اور سبزہ زار ڈھلانوں ، اونچے پہاڑوں اور گھنے جنگلوں کے دامن میں رواں دواں نالوں اور ان میں بہتے شفاف پانیوں کی راہ میں حائل بڑے بڑے پتھروں سے ٹکراتے فوارے کیا ہی پر کیف مناظر پیش کرتے ہوۓ روح کو تازگی بخش رہے ہیں۔ شہروں اور قصبوں کی گھٹن بھری بستیوں سے دوٗر یہ روح پرور، حقیقی زندگی اور قدرت کے شاہکاروں سے لبریز جگہیں فردوسِ زمین سے کم تو نہیں۔۔۔
شمع خان اور اسکے قبیلے کے دیگر ساتھی خانہ بدوش چرواہے اپنے اپنے مال مویشیوں اور ریوڑوں کی ایک ساتھ رکھوالی میں مگن ۔۔۔۔۔ کوئ کھنگارتا تو کوئ سیٹی بجا بجا کے ان بے زبان جانوروں کی زبان بن جاتا۔ اور یہ پالتو جانور بھی اُس گھٹن بھرے ماحول سے دور اپنے آپ کو آزاد دیکھ کر خوب مستیاں منا تے رہتے ۔
یہ خانہ بدوش “جنگل کے راجا” اپنی اپنی رانیوں کو عارضی خیموں میں رکھ کر خود محنت مشقت کرتے تو انکی رانیاں انکے لۓ چولہے جلاتیں اور پکوان تیار کرتیں ۔ بسا اوقات انکی خوردنی انمول گچھی ، مشروم 🍄 ، دیگر بوٹیاں اور جنگلی مرغ وغیرہ یعنی بلا ملاوٹ چیزیں ہوتی ہیں۔ غرض موسم سرما کی خوب ساری رعنائیوں کا لطف انکا مقدر رہتی ہیں۔
شمع خان ایک خوبرو نوجوان جسکی شادی چند ماہ قبل ہی روشنی خانم سے ہوئ تھی۔ روشنی ایک جوان سال سانولی صورت ، سرمئ آنکھوں والی ہنس مُکھ لڑکی جسکے خوبصورت چہرے کی خوش نما مسکراہٹ سبھی آشناؤں کو بھاتی اور جب ھی تو وہ ہر ایک کی چہتی تھی۔ شمع بھی روشنی کو پاکر اپنے آپ کو خوش قسمت گردانتا ، اور اسے از حد پیار کرتا رہتا۔ دونوں خوشیوں سے پھولے نہیں سماتے اور ہوتے بھی کیوں نہ روشنی تو اب امید سے بھی تھی۔۔۔۔ دن گزرتے گئے
اس بار موسم خزاں کچھ زیادہ ہی مہربان تھا اور نومبر کے مہینے میں بھی اچھی خاصی دھوپ نکلتی رہی تھی اسی لئے یہ لوگ ابھی بھی جنگل کی چراگاہوں میں ہی ٹِکے رہے تھے۔ لیکن اب آنے والی سردی سے بچنے کے لئے واپس میدانی علاقوں کا رخ ناگزیر تھا ۔ واپسی سے قبل کی آخری شام۔۔۔۔۔۔مدھیم مدھیم روشنی۔۔۔ بس ایک آخری مجمعے کی شروعات ۔۔۔ ناچ گانے کی محفل ۔۔۔ ایک دستور ۔۔۔مردوں اور مستورات کا ایک الگ الگ دایرہ۔۔۔ بیچ میں جلائ ہوئ آگ کے بلند ہوتے شعلے۔۔۔ ۔ کیا سماں بندھ گیا ہے۔۔۔ شمشیر بازی کا انوکھا رقص۔۔۔ صنفِ نازک ٹولی کا سریلا اور پُر سوز گانا۔۔۔۔ اور اب باری شمع خان کی۔۔۔ شمع اپنی روشنی کے حُسن اور بے انتہا پیار کو سروں کا روپ دے گیا۔۔۔
~”شمع اپنی روشنی دا دیوانہ
شمع خود نوں روشنی لَئِ پروانہ۔
سانولی صورت سرمئ انکھیاں پا کے
کر گئ یارا شمع نوں مستانہ۔
چال شرابی گال گلابی اس کے
پاگل کر دے اسکا یوں مسکرانہ۔
شمع اپنی روشنی دا دیوانہ
شمع خود نوں روشنی لَئِ پروانہ۔”~
اگلے دن شمع اور روشنی بھی باقی لوگوں کی طرح اپنا سامان باندھ کر واپسی کے سفر کی تیاری میں مصروف تھے۔۔۔ سامان بندھا تو ایک آخری بار اس فردوسِ زمین جگہ کا لمبی گہری سانس کے ساتھ دونوں نے ایک دوسرے سے گلے ملکر نظارہ کیا۔ صاف دکھ رہا تھا کہ اس جگہ سے جانے کا من تو نہیں کر رہا تھا۔۔۔ لیکن چارہ بھی تو نہیں تھا۔ روشنی کے پیٹ میں پل رہی ایک نئ کرن، نویں مہینے کا بھاری پن اور شروع پزیر موسم سرما کی دستک دے رہی سردی ، غرض سب کچھ ملحوظ نظر تھا۔۔۔۔
واپسی کا سفر جاری تھا ۔۔۔ بیشتر ساتھی چوپایوں کو لےکر تیز قدموں سے کافی آگے نکل گئے تھے۔ پہاڈی راستہ تھا اور روشنی خانم چونکہ بھاری پن کی وجہ سے زیادہ چل نہیں سکتی تھی لہٰذا گھوڑے پر سوار کر کے شمع اسے آہستہ قدموں سے آگے بڑھاتا ، اسے اپنی محبت ، اپنی خاطر داری کا پورا احساس دلاتا ، اور روشنی بھی یہ سب دیکھ کر من ہی من ایک اطمینان محسوس کرتی اور خوشی سے پھولے نہ سماتی تھی۔
ابھی کچھ فاصلہ ہی چلے تھے کہ اچانک سورج ☀️ بادلوں ☁️ کی لپیٹ میں آگیا۔ ایک اندھیرا سا چھا گیا۔ سرما نے اپنی آمد کا بگُل بجا دیا۔۔۔۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہوئ۔ دیکھتے ہی دیکھتے موسم نے پوری انگڑائی لی۔ گرج چمک اور تیز بارشوں کا سلسلہ ایسا امڈ آیا کہ سب تتر بتر ہوگۓ۔ گرج چمک کی آواز روشنی کے لۓ درد ناک تھی۔ اسکے من میں ایک عجیب ہلچل نے دستک دی اور ایک کراہ نے آنے والی اذیت کا اشارہ دیا ۔۔۔۔ رہے سہے ساتھی بھی خود کو بارش سے بچانے کے لۓ بھاگ کھڑے ہوۓ تھے۔۔۔ شمع روشنی کے بجھ جانے کے ڈر سے بے حال اسکے اوپر اپنی چادر ڈالتے ہوۓ اسے ایک درخت کی آڑ میں لے گیا۔ وہاں رکنا بھی تو ممکن نہ تھا کیونکہ موسم کا کوئی بھروسہ نہ تھا۔ اور یہ سر چھپانے کی جگہ بھی تو نہ تھی ۔۔۔ شمع آنے والے طوفان کو بھانپ گیا، لیکن روشنی کو دلاسہ دیتا رہا۔ بارش رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی بلکہ اور زیادہ تیزی دکھا رہی تھی۔۔۔ روشنی جیسے ماند سی پڑنے لگی۔۔۔سرمئ آنکھوں میں ایک خوفناک طوفان۔۔۔ چہرےکی وہ حسین مسکراہٹ بدلی اور پریشانی کے آثار نمایاں کررہی تھی ۔ مگر ایسے میں بھی اپنے شمع کا ساتھ اسے حوصلے کا ایک انوکھا اطمینان دلا رہا تھا۔۔۔ تبھی شمع خان کو یاد آیا کہ کچھ میل آگے چل کر ایک چھوٹا سا کوٹھہ ہے کسی بھی طرح اس تک پہونچا جائے ۔ ہمت کر کے دونوں نے پھر سےآگے کا سفر شروع کیا۔ کچھ ہی آگے چلے تھے کہ برف باری بھی شروع ہوئ ۔ برف کا آنا شمع روشنی کے لیۓ ایک اور بھی بڑی پریشانی کا باعث تھا۔ شمع خان اندر اندر سے جیسے ٹوٹتا جا رہا تھا۔ جوں توں کر کے آگے بڑھتے رہے۔ برف باری تیز ہوتی اور جمع ہوتی رہی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اتنی جمع ہوئ کہ چلنا دوبھر ہوگیا، موسم سرما نے اپنی تمام تر ہنر مندی دکھانی شروع کی تھی۔ گھوڑا بھی اب مشکل سے چل پا رہا تھا۔ کٹھن راہ ، سوار نازک اوپر سے زوروں کی برفباری ۔۔۔۔گھوڑے کا پیر پِھسلا ۔۔۔ روشنی گرتے گرتے شمع کی بر وقت کوشش سے بچ تو گئ لیکن اس طرح جھنجھوڑی گئ کہ اسکے منہ سے نکلی ہوئ چیخ سے سارا جنگل لرز اٹھا۔ آہ ۔۔۔ شمع بھی بے ساختہ کراہتے ہوۓ روشنی سے لپٹا ۔ دونوں روتے بلکتے ،فریاد کرتے آگے بڑھتے گۓ۔ کہیں کوئ پرسانِ حال نہیں۔ کوئی چارہ گر سامنے نہیں۔۔۔۔۔
دور سے وہ برف سے ڈھکا کوٹھہ دکھائی دیا تو شمع خان کی جان میں جان آگئ مگر روشنی تو ماند پڑ چکی تھی۔ ایک عجیب درد ہو رہا تھا لیکن اسے کیا معلوم کہ یہ درد تو دردِ زہ جگا تھا۔۔۔ شمع و روشنی کم عمری کے سبب دونوں ابھی اس سب سے ناواقف ہی تھے۔ بڑی مشکل سے وہ کوٹھے تک پہونچ گۓ جو خالی پڑا تھا۔ برف کی سفید چادر نے کوٹھے اور سارے ملحقہ طول وعرض کو اپنی آغوش میں لیا تھا۔ شام ہونے کو تھی۔۔۔ ہمت کرکے شمع خان نے گھوڑے پر لدا کچھ ہلکا پھلکا سامان اتار کر روشنی کو ایک چادر میں لپیٹ کر فرش پر لِٹایا جسکا درد اب آسمان چھو رھا تھا۔
چیخوں، سسکیوں اور آنسوؤں کا نہ تھمنے والا سیلاب۔۔۔۔۔ تاریک ہوتی جارہی رات ۔۔۔۔ اور بے یارو مددگار پڑے شمع اور اسکی ماند ہو رہی روشنی ۔۔۔۔۔ جسکا دردِ ذہ بڑھتا جارہا تھا۔ کسی کو کیا معلوم کہ کسمپرسی کی کیسی عجیب داستان رقم ہونے کی طرف گامزن تھی۔ شمع خان کبھی اپنی روشنی کو تو کبھی باہر امڑ آۓ برفانی طوفان کو دیکھ رہا تھا۔ اسکے لئے دونوں طوفان یکساں تھے۔ بستیوں سے دور یہ دو چاہنے والے اپنے آپ کو کس قدر بےحال اور لاچار پا رہے تھے جو انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوتا۔۔۔۔۔
شمع خان نے روشنی کا سر اپنی آغوش میں لے رکھا تھا اور روتے بلکتے اسے دلاسہ دینے کی ناکام کوشش کرتا رہا۔
اچانک سے روشنی کی چیخیں رک گئیں اور ایک نئ ہلکی سی رونے کی آواز ان آسمان چھوتی چیخوں کی جگہ لے گئی ۔ روشنی کی ایک نئ کرن کی آواز۔ شمع کے لئے ایک نئی کِرن کا ظہور۔۔۔ ہاں شمع اور روشنی کی اپنی کِرن۔۔۔۔ شمع خان نے کِرن کو سمیٹ کر روشنی کی چھاتی سے لگایا۔ کِرن ماں کا دودھ چوستی رہی اور روشنی خود پھٹی آنکھوں سے شمع کی طرف بنا پلک جھپکاۓ گھٗور رہی تھی۔۔۔ شمع روشنی کی طرف مخاطب ہوا ۔۔۔۔ روشنی دیکھ لے اپنی کرن کو۔۔۔ روشنی اب تو تمہیں آرام آیا ہوگا ۔۔۔۔۔ روشنی بات تو کرو۔۔۔۔۔ روشنی تم مجھے اس طرح کیوں گھور رہی ہو۔۔۔۔۔ روشنی میری جان بات تو کرو۔۔۔۔۔کیا ہوا ۔۔۔ تم ٹھیک تو ہو نا۔۔۔۔۔ روشنی۔۔۔۔! ۔۔۔۔پھر سے ایک فلک شگاف چیخ لیکن اب کی بار شمع خان کی اپنی روشنی کے لئے۔۔۔۔ افسوس روشنی مکمل طور ماند پڑ چکی تھی، بجھ چکی تھی اور وہ اپنی روح مالک حقیقی کے سپرد کر چکی تھی۔ آہ جس نئ کِرن کی خاطر یہ دردناک اذیت اور تکلیف اٹھائی تھی اُس کرن کو اپنی مخمور آنکھوں سے دیکھے بنا ہی اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر چکی تھی۔۔۔۔ شمع خان روتا رہا، بلکتا رہا۔ چیختا رہا چلّاتا رہا۔۔۔۔ وہ کبھی اپنی کِرن کی طرف دیکھتا جو اپنی مری ہوئی ماں کا پستان چوستی جا رہی تھی اور اپنے باپ کے لئے ایک راحت کا اشارہ فراہم کرتی رہی۔۔ تو کبھی اپنی بجھ چکی روشنی کی طرف دیکھتا جو مر کر بھی ایک ماں کا فرض ادا کر رہی تھی۔
شمع خان نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ اس نئی کِرن کو اسی طرح بجھی ہوئی روشنی کی چھاتی سے لپٹا کر خود کوٹھے سے باہر نکل آیا تاکہ کسی طرح اپنے باقی ناطے داروں کو کھوج سکے۔ اور مدد حاصل کر سکے۔ کوٹھے کا دروازہ بند کیا اور 🐎 گھوڑے پہ سوار ہوکے برف کو چیرتا آگے بڑھا۔ کچھ ہی دور چلا تھا کہ اسکے کانوں میں 🗻 پہاڑ کھسکنے کی آواز گونجی، پیچھے دیکھا تو برف کا ایک بھاری تودا کھسک کر اس کوٹھے کو اپنی آغوش میں لے رہا تھا ۔۔۔۔ شمع خان کی جان ہی جیسے نکل گئ ۔ وہ اس نئی واقع ہوئی مصیبت سے تڑپ اٹھا اور دم بخود ہو کر رہ گیا۔۔۔۔ برف کا تودہ روشنی کی لاش کو تو دفنا گیا مگر ساتھ میں کِرن جو ابھی ابھی دنیا میں وارد ہوئی تھی کو تو ذندہ درگور کر گیا تھا۔ شمع کی سوچ سمجھ جواب دے چکی ۔ اسکی ہمت جواب دے چکی تھی۔۔۔۔روشنی کو کھو کر اب وہ کِرن کو بھی زندہ درگور ہوتے دیکھ حواس باختگی کے عالم میں گھوڈا دوڑاتا میدانوں کی طرف لپکتا رہا۔ برف باری بہت زوروں سے جاری و ساری تھی ۔ ٹھٹھرتا اور پریشان حال شمع کبھی اپنی کِرن اور کبھی خود کی بچی جان کے بارے میں سوچتا ۔ کوٹھے میں رکا ہوتا تو یقیناً وہ بھی ۔۔۔۔
دوسرے دن اپنے قبیلے کے لوگوں سے جا ملا۔ اپنی روداد سنائی تو پورے قبیلے میں ماتم کی لہر 🌊 دوڑ گئی۔ روشنی کا وہ مسکراتا چہرہ ہر ایک کی آنکھیں نم کر گیا۔ بچاؤ اور راحت کا کوئی سامان نظر میں نہیں تھا کیونکہ برفباری تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی اور کوٹھے پر گرا ہوا برفانی تودا ہٹانا کارِدارد معاملہ تھا۔ شمع اپنی قسمت پر نالاں ،اپنی روشنی اور اسکی نئ کِرن کی جدائی کا غم سہہ نہ پارہا تھا۔
کئ دن گزر گئے۔۔۔۔ شمع خان کی حالت پر ترس کھاتے قبیلے والوں نے ٹھان لی کہ لاشوں کو نکال کر ہی دم لینگے اور وہ پھر سے پہاڑ 🗻 کی طرف چل دیئے۔کٹھن راستوں کو پھاندتے یہ دلیر لوگ برفانی تودے کی ذد میں آۓ کوٹھے پر سے برف ہٹانے میں جھٹ گئے۔ جوں توں کر کے کئ گھنٹوں کی انتھک کوشش کے بعد کوٹھے کے دروازے تک رسائی حاصل ہو پائی۔
دروازہ کھلا ۔۔۔۔سب کی آنکھیں نو زائیدہ کِرن کی ♎ تلاش میں تھیں۔۔۔۔ کسے معلوم تھا کہ زندگی دینے والا زندگی بخشنے کے لئے کون کون سی تدبیریں کرنا جانتا ہے۔۔۔۔ کوٹھے کے اندر سب ویسا کا ویسا جیسے ابھی ابھی شمع و روشنی کی کِرن ظہور پزیر ہوئ ہو ،اور اپنی مردہ ماں کی چھاتی سے لپٹی ہوئی اپنے آپ کو شیٖرِ مادر سے مستفید کر رہی تھی۔۔۔۔ سب کی آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ ساتھ ایک عجیب سی فتح کا احساس بھی نمایاں تھا کیونکہ شمع کی یہ کِرن ایک نئی روشنی بکھیرنے کےلئے ہی توِ دنیا میں وارد ہوئی تھی۔۔۔۔۔ اے جگ کے رکھوالے تیرے رنگ بڑے نرالے۔۔۔۔۔
“جسے رب راکھے اُسے کون چاکھے”
~ فردوس تسلؔیم رحمانی ~