غزل
قصدِ سکوت ہے بھلا یا کوئی طوفان سہی
راہِ دشوار کا کھیل ہے یا کوئی فرمان سہی
کھوج آفتاب کی دن کے اُجالوں میں بھلے
ہاتھ میں دیپ لئے یقین ہے کہ گمان سہی
اتنی جرأت کہ دہک سے یوں نظر ملا بیٹھے
آنکھ کا پھیر ہے یا اُس نور کا احسان سہی
کیسی یہ جنبشِ تحریک ہے پنہاں سے عیاں
مجوسی تو نہیں ضررِ آتش سےانجان سہی؟
کیا سوچ کے یوں پھونک لئے انگار کے ٹیلے
ورنہ نہیں کم خاک کے شعلے تو پہچان سہی
خاکی ہے تو کیوں آگ سے یوں میل کے درپے
جل جانا ہے مطلوب؟ یا کہ امرِ یزدان سہی
گر پا لیا اب قُرب ، توعالمِ تپش بھی بتا جا
جان کنی ہے کہ سوزشِ جان کا ہیجان سہی
سُن، مدُھرعالم سوچ، ہے خاطرِ غلمان بہ نظر
نارِنمرود ہو اور ابراہیم۴کی وہ مسکان سہی
حوصلہ دیکھ ، عزم دیکھ اک امتحان سہی
بے سبب نہیں ، ہو نہ ہو حاصلِ ایمان سہی
دل کی بیتابی کو تسلؔیم کچھ عنوان بخش
غوطہ زن آگ میں، کیا عجب، ہو پروان سہی
فردوس تسلؔیم رحمانی